اسلام آباد ( نئی تازہ رپورٹ) سپریم کورٹ اف پاکستان نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کا لعدم قراردے دیا ہے ۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی براہ راست سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر علی ظفر، حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان موجود تھے۔
ہفتہ کوسماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریکِ انصاف کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا وہ فیصلہ برقرار رکھا ہے جس میں الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات پارٹی آئین اور قانون کے مطابق نہ کروانے پر تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ متفقہ فیصلہ سنایا ہے۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ پانچ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 13 سیاسی جماعتوں کے خلاف اسی تناظر میں کارروائی کی کیونکہ یہ جماعتیں بروقت انٹرپارٹی انتخابات نہیں کروا سکیں۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف کے 14 ارکان نے انٹرپارٹی انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ای سی پی میں درخواستیں بھی جمع کروائی تھیں۔
چیف جسٹس نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں پاکستان تحریک انصاف کو انٹراپارٹی انتخابات کروانے کا کہا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں حکومت تھی چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سے امتیازی سلوک کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں پی ٹی آئی نے جو انٹرا پارٹی انتخابات کروائے ان کے بارے میں پہلے کہا گیا کہ یہ پشاور میں ہوں گے اوربعد ازاں انھیں پشاور کے قریبی علاقے چمکنی منتقل کر دیا گیا، جبکہالیکشن میں بھی حصہ لینے والوں کو کاغذات نامزدگی دینے سے انکار کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیاہے کہ پاکستان جمہوریت کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے اور جب جمہوری طور طریقے ختم ہوجاتے ہیں تو آمریت پنپتی ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان تحریک آنصاف نے الیکشن کمیشن کا انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ ایک ہی معاملے کو دو ہائی کورٹس میں کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ میں جو درخواستیں دائر کی تھیں ان کو ابھی تک واپس نہیں لیا گیا اور پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے جو درخواست دائر کی گئی اس میں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ایسا کوئی معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ مختصر فیصلہ سپریم کورٹ کی وعب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔
اس سے قبل فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد تین رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ آج رات ہی سنایا جائے گا کیونکہ انتخابی شیڈول کے مطابق ہفتہ کو امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کرنے کی آخری تاریخ تھی۔