اسلام آباد ( نئی تازہ رپورٹ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنماؤں شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او تھری کے تحت نظر بندی کا حکم نامہ معطل کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائیشروع کردی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے موقع پرشہریار آفریدی اپنے وکیل شیر افضل مروت کے ہمراہ پیش ہوئے اورقرآن پاک کا نسخہ اٹھا کر روسٹرم پر آگئے ۔
جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنرعرفان نواز میمن کو روسٹرم پرطلب کیا توڈی سی نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سب کے سامنے ہیں، انٹیلی جنس رپورٹسمیں بتایا گیا شہریار آفریدی نے اشتعال پھیلایا،ان کے ڈسٹرکٹ کورٹس پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، جبکہ عدلیہ کے خلاف مہم میں بھی ان کا نام آیا ہے۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر سے استفسار کیا کہ جیل میں ہونے کے باوجود انہوں نے لوگوں کو کیسے اشتعال دلایا؟ جس پر ڈپٹی کمشنر نے موقف اختیار کیا کہ میری آنکھیں اور کان انٹیلی جنس رپورٹس ہی ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ شہریار آفریدی کی منصوبہ بندی کی آپ کے پاس کیا معلومات تھیں؟ جس پر ایس ایچ او نے بتایا کہ میںاس وقت وہاں پر ایس ایچ اوتعینات نہیں تھا، چارج کسی اورکے پاس تھا،جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پھر تو آپ کی جان چھوٹ گئی۔
عدالت نے دریافت کیا کہ شہریار آفریدی کی گرفتاری کے وقت ڈی پی او کون تھا؟ جس پر متعلقہ ڈی پی او روسٹرم پر آگئے۔
عدالت نے پوچھا کہ شہریار آفریدی کی پلاننگ سے متعلق آپ کے پاس کیا اطلاع تھی؟ جس پر ڈی پی او نے بتایا کہ میں اس وقت چھٹی پر گیا ہوا تھا۔
جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے شوکاز نوٹس کا جواب فائل کر دیا ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ جی سر، تحریری جواب داخل کرا دیا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ 8 مئی کواسلام آباد میں کیا ہو رہا تھا ، کیا آپ نے اس بارے میں پوچھا؟ ان رپورٹس کی روشنی میں آپ نے بھی اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے، پولیس حکام بتائیں کہ 8 مئی کواسلام آباد میں کیا صورتحال تھی ؟
آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ واقعہ ہونے سے قبل خدشات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے، ہم نے یہ کارروائیاں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپیشل برانچ کی رپورٹ محض ایک مذاق ہے، وہ نوٹیفکیشن کہاں ہے جس پر شہریار آفریدی کی گرفتاری کی اجازت دی گئی۔
ایس ایس پی کے وکیل طاہر کاظمکی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم قرار دینے کی وجوہات مختلف تھیں، عدالت نے کہا کہ نظربندی احکامات بعد میں جاری ہوئے اور گرفتار پہلے کیا گیا، تھریٹ الرٹس پر کارروائی خدشات کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔
جسٹس بابرستار نے کہا کہ عدالت آردڑ کالعدم قرار دیتی ہے اور پھر نیا ایم پی او آرڈر آجاتا ہے، جسٹس بابر ستار نے ایس ایس پی آپریشنز کا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی آپریشنز پر بھی فرد جرم عائد کی جائے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ سنا دیا۔جسٹس بابر ستار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی سے متعلق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایم پی او آرڈر معطل کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد میں اپنی رہائشگاہ جانے کی اجازت دے دی۔