اسلام آباد (نئی تازہ رپورٹ) سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق صورت حال پر ازخود نوٹس کی سماعت جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں، گورنرز اور صدر کو نوٹس جاری کر دیئے گئے.لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
سیکشن 57 میں چیزیں واضح نہیں ہیں
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، اس سیکشن میں چیزیں واضح نہیں ہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے؟ انتخابات میں تاخیر کو مزید طول نہیں دے سکتے۔ سینیئر وکلا کی معاونت
چاہیے ہوگی، اس کیس کے لیے روٹین کے کیسز نہیں سنیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ کے اعتراضات
سماعت کے دوران دو ججز جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا، پہلے سپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اس بنچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو کیسے بلا لیا گیا؟ میرے نزدیک یہ از خود نوٹس نہیں بنتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے بھی از خود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی جس پر از خود نوٹس لیا گیا؟
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے سوالات اور تحفظات کو اپنے حکم میں دیکھیں گے۔ یہ الگ بحث ہے کہ از خود نوٹس لینا چاہیے تھا یا نہیں، اس حوالے سے بنیادی حقوق کا معاملہ ہونے پر از خود نوٹس لیا۔ کیس کی کل ( جمعہ کو) دوبارہ سماعت ہو گی۔
بعد ازاں عدالت نے نے وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں، گورنرز اور صدر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کر دی ۔ اس سے قبل اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوپائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔
گزشتہ روز از خود نوٹس لینے سے متعلق سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس بات پر غور کیا جائے گا کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے، انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری کس نے اور کب پوری کرنی ہے، اور وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داری کیا ہے؟