اسلام آباد(نئی تازہ رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے ہی سے ممکن ہے۔ کیوں نہ عمران خان کو بلا کرپوچھا جائےکہ اسمبلی نہیں جانا تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں۔
جمعرات کونیب قوانین میں ترامیم کے کیس میں دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عام انتخابات کے حوالے سے کہا کہ موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اسپیکر رولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022ء میں انتخابات کرانے کے لیے تیار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ پارلیمنٹ دانستہ طور پر نامکمل رکھی گئی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے ہی سے ممکن ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم پر عمران خان کا حق دعویٰ نہ ہونے پر دلائل دیتے ہوئےکہا کہ عدالت آرٹیکل 184 تھری پر محتاط رہے، آرٹیکل 184 تھری کے تحت کسی بھی درخواست پر قانون سازی کالعدم قرار دی گئی تو معیار گرجائے گا، آرٹیکل 184 تھری کا اختیار عوامی معاملات میں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس کے حقائق مختلف ہیں، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں، ملک میں شدید سیاسی تناؤ اور بحران ہے، انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمت عملی اپنائی، پتا نہیں چلا کہ پی ٹی آئی نے پھر سے کیوں پارلیمنٹ میں واپس آنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار عمران خان عام شہری نہیں ، حکومت چھوڑنے کے بعد بھی ان کو عوام کی بڑی پشت پناہی حاصل رہی، یہ عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، عدالت نے ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے، عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرچکی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم آئے تھے جنہیں بہت دیانت دار سمجھا جاتا تھا، ایک دیانت دار وزیراعظم کی حکومت کو 58 ٹو بی کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 58 ٹو بی ڈریکونین قانون تھا، 1993 میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب الیکشن ہی کرائے جائیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اب عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے، چیف جسٹس نے حکومت کے وکیل کا عمران کو استحقاق حاصل نہ ہونے کا اعتراض مسترد کر تے ہوئے کہا کہ اس کیس میں عمران خان کا حق دعویٰ ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ نہیں ۔ وفاقی حکومت کے وکیل کی بات کا جواب دیتے ہوئےچیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت کبھی حکومت کرنا نہیں چاہتی، عدالت ازخود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے، سیاسی خلا عوام کے لیے کٹھن ہوتا ہے، جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ جب عمران خان نے حکومت چھوڑی تونیب ترامیم قائمہ کمیٹی میں تھیں، موجودہ حکومت نے عمران خان کی چھوڑی ہوئی نیب ترامیم منظور کی ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں 2021 کے دوران پانچ نیب آرڈیننس لائے گئے، عمران خان نے صرف حکومت جانے پر نیب ترامیم کوچیلنج کیس ہے، کیا پتا عمران خان عدالت میں آ کر کہیں کہ انہوں نے نیب ترامیم پڑھی ہی نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جمعہ 10فروری تک ملتوی کردی ہے۔