اسلام آباد (نئی تازہ رپورٹ) عدالت نے اسلام آباد سری نگر ہائی وے پر پولیس کے اینٹی ٹیررازم اسکواڈ کے اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی قتل کیس میں دو ملزمان کو سزائے موت اور تین کو عمر قیدکی سزا سنادی۔
پیر کوڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا، عدالت نے 31 جنوری کو سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، کیس کی سماعت دو سال سے زائد عرصہ جاری رہی۔اسامہ ندیم ستی ندیم۔ عدالتی فیصلہ میں ملزم افتخار احمد اور محمد مصطفیٰ کو سزائے موت جب کہ سعید احمد، شکیل احمد اور مدثر مختار کو عمرقیدکی سزاسنائی گئی، افتخار احمد اور محمد مصطفیٰ پر ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ قتل کیس میں سزا پانے والے تمام افراد کا تعلق پولیس کے اینٹی ٹیررازم اسکواڈ سے ہے۔عدالتی فیصلےکے بعد اسامہ ستی کے والدکمرہ عدالت کے باہر آبدیدہ ہوگئے۔ یاد رہے کہ یکم اور دو جنوری 2021کی درمیانی شب 22 سالہ اسامہ ندیم ستی اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر جی 10 کے اشارے کے قریب پولیس کی گولیوں کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق اسامہ ستی دوست کو ڈراپ کرنے ایچ 13 میں واقع نسٹ یونیورسٹی گئے تھے ، دوست کو ڈراپ کر کے جی 13 میں واقع اپنے گھر کی جانب جانے کگے تو انسداد دہشت گردی پولیس کے اہلکاروں نے ایچ 13 سے نکلتے ہی اُن کی گاڑی کا پیچھا شروع کر دیا۔ خوف کے باعث اسامہ سری نگر پر جی 13 کی جانب مڑنے کے بجائے جی ٹین اشارے تک گاڑی دوڑاتے رہے جہاں پہنچ کر پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کر دی ، ریکارڈ کے مطابق پولیس کی جانب سے 22 گولیاں چلائی گئیں جن میں9 اسامہ ستی کو لگیں تھیں۔ اسامہ کے والد کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ جن اہلکاروں نے اسامہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا ایک روز قبل ان کے ساتھ اسامہ کی معمولی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور پولیس اہلکاروں نے اسامہ کو دھمکایا تھا۔
قتل کے بعد ابتدائی طور پہ پولیس نے واقعہ کو ڈکیٹی کی واردات ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن میڈیا اورسوشل میڈیا پرصورتحال سامنے آنے اور دباؤ کی وجہ سے اصل معاملہ چھپ نہ سکا اور اسامہ ستی کے والد کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی کے پانچ اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان دفعہ 302 بھی شامل کی گئی۔ کابینہ کی میٹنگ میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا تھااور وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ تحقیقات کر کے واقعے کی رپورٹ درج کرائیں جس کے بعد پولیس نے معاملے کو سنجیدہ لیا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو برطرف کر کے حراست میں لے کر قانونی کارروائی شروع کی گئی۔دوسری جانب ملزم اہلکاروں نے ابتدائی طور پر موقف اپنایا تھا کہ سیکٹر ایچ 13 میں ڈکیٹی کی واردات کی کال آئی تھی اور اسامہ ستی کی گاڑی کو ڈاکوؤں کی گاڑی سمجھ کر فائر کیے گئے کیونکہ گاڑی پولیس کے اشارہ دینے کے باوجود نہیں رکی۔
چیف کمشنر اسلام آباد نے واقعہ کے بعد تین جنوری کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جو سات اراکین پر مشتمل تھی۔ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا بھی ایک ایک نمائندہ مشرکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل تھا۔ جب کہ ڈی ایس پی رمنا، ڈی ایس پی انویسٹی گیشن اور ایس ایچ او رمنا بھی جے آئی ٹی کا حصہ تھے۔کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ تیرہ جنوری کو سامنے آئی رپورٹ کے مطابق اسامہ ستّی کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی بتعلق ثابت نہیں ہوا اسامہ کو گولیاں جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے ماری گئیں،گولیاں ایک اہلکار نےنہیں چلائیں بلکہ چار سے زائد اطراف سے 22 گولیاں ماری گئیں۔
جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سینیئر افسروں کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا اور قتل کو چار گھنٹوں تک اسامہ کے خاندان سے چھپایا گیا۔ ڈیوٹی افسر بھی معاملے کا حصہ بن گیا اس نے جائے وقوعہ کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہ بنائی۔ موقع پر پہنچنے والے پولیس افسران کی جانب سے بھی ثبوت مٹانے کی کوشش کی گئی، واقعے کوڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور سینیئرافسران سے حقائق چھپائے گئے، مقتول کو ریسکیو کرنے والی گاڑی کو غلط لوکیشن بتائی جاتی رہی۔ اسامہ ستّی کی لاش کوپولیس نے سڑک پر رکھا تھا لیکن پولیس کنٹرول نے 1122 کوغلط ایڈریس بتایا، اسامہ کے قتل کو 4 گھنٹے فیملی سے چھپایا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو ایس او پیز کے بارے میں کچھ علم نہیں نہ ہی متعلقہ حکام اس سے متعلق کمیشن کو کچھ دکھا یا بتا سکے۔