اسرائیل کی طرف سے دمشق ایئر پورٹ پر حملے میں دو افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے- ائر پورٹ غیر فعال ہونے سے پرواوں کی آمدورفت رک گئی ہے۔
شام کی فوج نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں حملے کی تصدیق کی ہے ۔فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ فضائی حملہ، جس نے دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور اس کے اطراف کو نشانہ بنایا، پیر کو مقامی وقت کے مطابق صبح 2 بجے کیا گیا-
بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے کے نتیجے میں دو فوجیوں کی موت ہوئی اوردو دیگر زخمی ہوئے اور ایئر پورٹ غیر فعال ہو گیا۔ واضح رہے کہ سات ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری مرتبہ دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بند کرنا پڑا ہے۔10 جون کو ہوائی اڈے پر اسرائیلی فضائی حملوں نے بنیادی ڈھانچے اور رن ویز کو کافی نقصان پہنچایا تھا ۔ اس وقت بھی دمشق کا ہوائی اڈا غیر فعال ہو گیا تھا جسے جزوی تعمیر نو کر کے دو ہفتے بعد دوبارہ فعال کیاگیا تھا۔
اسرائیل شام کے دوسرے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنا چکا
اس سے پہلے اسرائیل شام کے دوسرے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنا چکا ہے، جس میں شام کے سب سے بڑے شہر اور اپنے دور کے تجارتی مرکز حلب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ستمبر میں ایک حملہ بھی شامل ہے، جس نے اسے کئی دنوں تک سروس سے محروم کر دیا تھا۔
اسرائیل حالیہ برسوں میں شام کے حکومتی کنٹرول والے علاقوں میں اہداف پر سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ تاہم سرکاری طور پر کم ہی ایسی کارروائیوں کو تسلیم کیا گیا۔ تاہم اسرائیل تسلیم کرتا ہے کہ وہ ایران کے اتحادی مسلح گروپوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتا ہے، جن میں لبنان کی حزب اللہ بھی شامل ہے ۔
پالیسی جاری رکھنے کا اشارہ
ہارورڈ کینیڈی اسکول کے مڈل ایسٹ انیشی ایٹو کے ایک سینئر فیلو رامی خوری کے مطابق اسرائیل کا تازہ حملہ بینجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں نئی حکومت کے ذریعے ممکنہ طور پر ایرانیوں، شامیوں اور روسیوں کو اشارہ دے رہا ہے کہ اسرائیل اپنی اس پالیسی کو برقرار رکھے گا جس کے تحت وہ کسی بھی ایسے ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے جسے وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے
۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو نے نومبر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 29 دسمبر کو چھٹی مدت کے لیے اسرائیل کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔
رامی خوری نے کہا کہ یہاں یاد رکھنے کی اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت کانگریس کے ذریعے، برسوں پہلے اس بات کی ضمانت دے چکی ہے کہ اسرائیل اپنے اردگرد موجود دشمنوں یا دشمنوں کے کسی بھی مجموعے سے عسکری طور پر برتر ہوگا۔ لہذا اسرائیل کے پاس استثنی ہے کہ وہ خطے میں جہاں چاہے حملے کر سکتا ہے اور کوئی بھی انہیں روکنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
فوری طور پر اسرائیل کی طرف سے اس حملے سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا