اسلام آباد ( نئی تازہ رپورٹ) وفاقی حکومت نے واضح کیا ہے کہ محصولات کے ہدف میں ایک کھرب 56 ارب روپے کی کمی کے باوجود کسی نئے ٹیکس کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
یہ بات گزشتہ روز ایک عوامی سماعت کے دوران سامنے آئی، جہاں پاور ڈویژن کے افسران نے بتایا کہ بجلی فراہم کرنے والے سرکاری اداروں کے ٹیرف پر نظرِ ثانی کے نتیجے میں صارفین کو تقریباً ایک کھرب 50 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو اسی مقدار میں محصولات میں کمی کا سامنا ہوگا، تاہم اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔
البتہ افسران نے عندیہ دیا کہ محصولات میں کمی کو متوازن کرنے کے لیے حکومت بجلی صارفین کو دی جانے والی سبسڈی میں کمی کرسکتی ہے۔
سماعت میں شریک افراد نے حکومت کے اُس اقدام کو سراہا جس کے تحت پاور پلانٹس کے ساتھ نئے معاہدے کیے گئے تاکہ استعدادی ادائیگیوں (capacity payments) میں کمی لائی جا سکے۔ ان معاہدوں کے مطابق حکومت اب صرف اتنی ہی رقم ادا کرے گی جتنی بجلی درکار ہوگی، جب کہ پیداواری صلاحیت کے مد میں ایک طے شدہ رقم دی جائے گی۔
شرکاء نے نشاندہی کی کہ حکومت نے سوئی سدرن گیس سے 220 ایم ایم سی ایف ڈی اور سوئی ناردن گیس سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی کم کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاور پلانٹس کو مائع قدرتی گیس (LNG) کے ساتھ گیس ملا کر فراہم کی جائے تو بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی ممکن ہے۔
شرکاء کو بتایا گیا کہ جن سرکاری پاور پلانٹس کے ساتھ نئے معاہدے کیے گئے ہیں، ان میں نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی بلوکی، نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی حویلی بہادر شاہ، سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ گدو، اور نیشنل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ نندی پاور شامل ہیں۔ ان معاہدوں کا مقصد صارفین پر بجلی کے بلوں کا بوجھ کم کرنا ہے۔