وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے زرعی شعبے کی بہتری انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر کسانوں کو اعلیٰ معیار کے بیج، کھاد اور اصل زرعی ادویات مناسب قیمت پر فراہم کی جائیں تو ایک نیا زرعی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جنوبی کوریا کے تعاون سے اب پاکستان میں ہی آلو کا بہترین بیج تیار کیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے پیر کے روز نیشنل ایگریکلچرل اینڈ ریسرچ سینٹر کے دورے کے دوران جدید ایروپونکس طریقے سے کاشت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر اسلام آباد میں سیڈ پوٹاٹو پروڈکشن اینڈ ایروپونکس کمپلیکس کا افتتاح کیا گیا، جو کہ کوریا پارٹنرشپ فار انوویشن آف ایگریکلچر (کوپیا) اور پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے درمیان ایک اہم شراکت داری کا نتیجہ ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان میں آلو کے بیج کے معیار اور دستیابی میں نمایاں بہتری آئے گی، جبکہ اس کا مقصد پیداوار کی لاگت کم کرنا اور معیاری بیج مناسب قیمت پر فراہم کرنا ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر حسین سمیت دیگر وزراء، ارکانِ اسمبلی، جنوبی کوریا کے قائم مقام سفیر اور زرعی ماہرین بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے اس منصوبے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے زرعی سائنسدانوں اور ماہرین کی کوششوں کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ ان کی محنت سے زرعی شعبہ ترقی کرے گا۔ انہوں نے آلو کے بیج کی تیاری میں جنوبی کوریا کے تعاون پر شکریہ ادا کیا اور کوریا کی اقتصادی ترقی، زراعت، اسٹیل اور صنعتوں میں مہارت کو سراہا۔
وزیراعظم نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ ملکی آبادی کا 65 فیصد حصہ دیہات میں زراعت سے وابستہ ہے۔ پاکستانی کسان محنتی اور قابل ہیں، اگر انہیں معیاری بیج، کھاد اور اصل زرعی ادویات مناسب قیمت پر دستیاب ہوں تو ملک میں دوبارہ زرعی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور کسانوں کو جعلی زرعی ادویات سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو زرخیز زمین اور دریا عطا کیے ہیں، جبکہ ہمارے سائنسدان اور زرعی ماہرین بھی بے حد قابل ہیں۔ ملک میں لاکھوں زرعی گریجویٹس موجود ہیں، اگر انہیں موزوں مواقع فراہم کیے جائیں تو زراعت کی ترقی سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ اضافی اجناس برآمد بھی کی جا سکیں گی۔ تاہم، یہ سب کچھ صرف تقریروں سے ممکن نہیں بلکہ سخت محنت اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان کا زرعی شعبہ نمایاں ترقی کر رہا تھا، لیکن اب ہمیں کپاس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ اس جدید سنٹر کے قیام سے آلو کا بہترین بیج مقامی طور پر دستیاب ہوگا اور درآمدات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ توقع ہے کہ یہ بیج انتہائی معیاری ہوگا، جس سے آلو کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور پاکستان آلو برآمد کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
وزیراعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمسایہ ممالک زرعی شعبے میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں کیونکہ ہم بروقت فیصلے نہیں کر سکے۔ اگر ماضی میں ضروری اقدامات کیے جاتے تو آج پاکستان کپاس میں خودکفیل ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے کسانوں کی محنت کا اعتراف کرنا چاہیے کیونکہ انہی کی بدولت زرعی شعبہ قائم ہے۔ زراعت کی ترقی سے ہی ملکی معیشت کو استحکام ملے گا۔
وزیراعظم نے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی سرمایہ کاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار بڑھانے، کولڈ اسٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اگر ضروری اقدامات کیے جاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی، لیکن اب محنت اور لگن سے زرعی شعبے میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ایک ہزار فریش گریجویٹس کو تربیت کے لیے چین بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ جدید زرعی طریقے سیکھ کر کسانوں کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود قیمتی زرمبادلہ خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کر رہا ہے، جسے روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ لائیو اسٹاک کے شعبے میں بھی بہتری لانے کے مواقع موجود ہیں، اور اگر ان مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان خطے کے دیگر ممالک کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم نے زرعی مشینری کی مقامی تیاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نجی شعبے کے اشتراک سے اس کام کو آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جلد ہی زرعی ماہرین اور ڈگری ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے زرعی ترقی کا روڈ میپ تیار کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے بھی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور حکومت وزیراعظم کی قیادت میں سبز انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زرعی شعبے کو اولین ترجیح دے کر اس کی ترقی کے لیے متعدد اقدامات کر رہی ہے۔ آلو کے بیج کا منصوبہ ایک منفرد اقدام ہے، جس سے پاکستان اعلیٰ معیار کے آلو کے بیج کی پیداوار میں خودکفیل ہونے کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے۔
آر ڈی اے کوریا کے ایڈمنسٹریٹر کوان جے ہان نے کہا کہ ان کا مقصد زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ این اے آر سی کے ساتھ آلو کے بیج میں اشتراک ایک اہم پیش رفت ہے، جس سے آلو کے بیج کی پیداوار میں نمایاں بہتری آئے گی۔
قبل ازیں وزیراعظم نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار جینومکس اینڈ ایڈوانسڈ بائیو ٹیکنالوجی کا بھی افتتاح کیا، جو کہ پودوں، جانوروں اور جرثوموں پر زرعی تحقیق کے لیے وقف ایک جدید قومی ادارہ ہے۔ پی اے آر سی کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی کے مطابق، روایتی طریقے سے آلو کی کاشت میں فی پودا صرف پانچ ٹیوبر پیدا ہوتے ہیں، جبکہ ایروپونک سسٹم کے ذریعے فی پودا 50 سے 60 ٹیوبر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف بیج آلو کی مقامی کھپت پوری ہو گی بلکہ درآمدی اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
پاکستان میں تقریباً 8.5 لاکھ ایکڑ پر آلو کاشت کیا جاتا ہے، لیکن مقامی بیج کی کم معیار کی وجہ سے سالانہ 6,000 سے 12,000 ٹن آلو کے بیج درآمد کیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت چار ایروپونک گرین ہاؤسز، 35 سکرین ہاؤسز، کولڈ اسٹوریج اور 100 کلو واٹ شمسی توانائی کا نظام قائم کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے این اے آر سی میں لیبارٹریز اور پوٹاٹو فارمز کا بھی دورہ کیا اور زرعی مصنوعات اور جدید زرعی آلات کے ڈسپلے اسٹالز کا معائنہ کیا، جہاں انہیں زرعی محققین نے تفصیلی بریفنگ دی۔