وفاقی حکومت نے تنخواہوں میں ازخود اضافے پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔ رانا محمود الحسن کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا، جس میں وفاقی حکومت نے نیپرا کے خود ساختہ تنخواہوں میں اضافے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔
چیئرمین نیپرا اور دیگر ممبران نے اپنی تنخواہوں میں تقریباً تین گنا اضافہ کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ نیپرا کے چیئرمین اور ممبران نے اپنی تنخواہیں خود ہی 220 فیصد سے زیادہ بڑھا لی تھیں۔ ذرائع کے مطابق تنخواہوں میں اضافے کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری لازمی ہوتی ہے، لیکن نیپرا نے بغیر کسی منظوری کے تنخواہوں میں 20 سے 22 لاکھ روپے تک اضافہ کر دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ تنخواہوں میں من مانا اضافہ ایڈہاک ریلیف اور ریگولیٹری الاؤنس کی مد میں کیا گیا، اور اکتوبر 2023 کے نظرثانی شدہ نوٹیفکیشن کے مطابق تنخواہ تمام مراعات سمیت 10 لاکھ روپے تک بنتی تھی۔ چیئرمین اور نیپرا ممبران تمام ایم پی ون اسکیل میں شامل ہیں۔ چیئرمین نیپرا کی تنخواہ بڑھ کر 32 لاکھ روپے سے زیادہ ہو گئی، جبکہ نیپرا کے چاروں ممبران کی تنخواہیں بھی بڑھ کر 29 لاکھ روپے تک ہو گئیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگو میں سابق چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے بتایا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ سب کچھ شامل کرکے 7 لاکھ 90 ہزار روپے تھی، اور وہ اگست 2023 تک چیئرمین نیپرا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں نیپرا ممبران کی تنخواہ 7 لاکھ 40 ہزار روپے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیپرا اور ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ صرف وفاقی کابینہ ہی کر سکتی ہے۔
سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کے مطابق نیپرا سے تنخواہوں میں اضافے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اضافہ نیپرا ایکٹ کے سیکشن 8 کی خلاف ورزی ہے، اور نیپرا کو تحریری طور پر وضاحت دینی ہوگی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ سیکرٹری کابینہ نے مزید کہا کہ تمام ریگولیٹری ادارے وزیراعظم یا کابینہ کے ماتحت آتے ہیں۔