جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے سخت عوامی رد عمل کے بعد محض چند گھنٹے قبل لگایا گیا مارشل لاء ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مارشل لاء کوصدر یون نے “مذہبی ریاستی قوتوں” کے خلاف ایک براہ راست اقدام کے طور پر پیش کیا تھا ۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف فوری طور پر شدید مخالفت کا آغاز ہوگیا، جس کا نتیجہ ایک تاریخی پارلیمانی ووٹ کی صورت میں نکلا جس میں اس اقدام کو مسترد کر دیا گیا اور صدر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا گیا۔
مارشل لاء کے تحت فوجی دستے قومی اسمبلی کو گھیر کر پارلیمنٹ کی عمارت کو عارضی طور پر سیل کر چکے تھے، اور اس فیصلے کو بیرونی خطرات خاص طور پر شمالی کوریا اور داخلی سیاسی قوتوں سے ملک کو بچانے کے لیے ضروری سمجھا گیا تھا۔ صدر یون نے رات دیر گئے نشریاتی خطاب میں اس فیصلے کو جنوبی کوریا کی لبرل جموکری کی حفاظت کے لیے لازمی قرار دیا، جسے انہوں نے “قانون ساز آمرانہ حکمرانی” اور شمالی کوریا کے کمیونزم کے ساتھ ممکنہ تعاون سے جوڑا تھا۔
جنوبی کوریا میں 40 سالوں میں یہ پہلا مارشل لاء تھا جسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ بدھ کی صبح قومی اسمبلی نے ایک ہنگامی اجلاس میں اس حکم کو مسترد کر دیا۔ مارشل لاء کو ختم کرنے کی قرارداد کو تمام موجود 190 ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔
صبح ساڑھے چار بجے صدر یون نے پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں اور مارشل لاء کو واپس لے لیں گے۔ ایک ٹی وی خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم قومی اسمبلی کی درخواست قبول کریں گے اور کابینہ کے اجلاس کے ذریعے مارشل لاء کو ختم کر دیں گے۔ بعد ازاں کابینہ نے اس قرارداد کی منظوری دے دی، جس کے بعد مارشل لاء کو صرف چھ گھنٹوں کے اندر ختم کر دیا گیا۔
اس فیصلے کے واپس ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کرنے والے سینکڑوں افراد نے جشن منایا۔ مظاہرین جو منجمند درجہ حرارت کے باوجود باہر کھڑے تھے، جنوبی کوریا کے پرچم لہرا رہے تھے اورسدر یون کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : نیشنل بینک برانچ میں 20 لاکھ روپے کی جعلی کرنسی ، سٹیٹ بینک نے سیل کر دیا
واضح رہے کہ یون کا مارشل لاء لگانے کا فیصلہ حزب اختلاف کے زیر کنٹرول قومی اسمبلی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جڑا تھا۔ بنیادی تنازعہ قومی بجٹ کی تجویز پر تھا، جس میں حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی نے حکومت کے بجٹ کے بڑے حصے کو کم کر دیا تھا جس میں صدر کا دفتر اور اہم سرکاری اداروں کی کٹوتیاں شامل تھیں۔
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد عالمی سطح پر تشویش بڑھ گئی تھی۔ جنوبی کوریا کے اہم اتحادی امریکہ نے اس پرگہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور ملک سے جمہوری اصولوں پر قائم رہنے کی اپیل کی تھی۔ جبکہ چین، جو شمالی کوریا کا قریبی اتحادی ہے، نے اپنے شہریوں کو جنوبی کوریا میں محتاط رہنے کی ہدایت کی تھی۔