امریکی صدارتی انتخابات دنیا کے سب سے زیادہ پیچیدہ اور وسیع جمہوری انتخابی عمل میں شمار ہوتے ہیں۔ ہر چار سال بعد، امریکی عوام ملک کے نئے صدر اور نائب صدرکا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ عمل کئی اہم مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں ابتدائی مہمات، پرائمری انتخابات، قومی کنونشنز، عام انتخابات اور الیکٹورل کالج شامل ہیں۔
ایک سال پہلے: ابتدائی مہمات اور امیدواروں کا انتخاب
انتخابی عمل کا آغاز عام طور پر ایک سال قبل ہو جاتا ہے جب دو بڑی سیاسی جماعتیں، ڈیموکریٹک اور ریپبلکن، اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب کے لیے مہمات شروع کرتی ہیں۔ امیدوار اپنی مہم کی حکمت عملی وضع کرتے ہیں، اپنے حامیوں کے ساتھ رابطہ قائم کرتے ہیں، ملک بھر میں دورے کرتے ہیں، اور فنڈز جمع کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی انتخابی مہم کو کامیاب بنا سکیں۔
انتخابی مہمات : مناظرے اور عوامی تعلقات
مناظرے صدارتی انتخابی عمل کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان میں امیدواروں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی مسائل پر سخت سوالات کیے جاتے ہیں، جن کا مقصد ان کی پالیسیوں اور حکمت عملی کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ان مناظروں کے ذریعے عوام کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ امیدواروں کے خیالات اور صلاحیتوں کا بہتر اندازہ لگا سکیں۔
انتخابی عمل کے اہم مراحل
مرحلہ 1: پرائمری اور کاکس
پرائمری اور کاکس دو اہم طریقے ہیں جن کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں۔ یہ عمل فروری سے شروع ہوتا ہے اور ابتدائی ریاستیں جیسے کہ آئیووا، نیو ہیمپشائر، نیواڈا اور ساؤتھ کیرولائنا کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔
پرائمری: پرائمری انتخابات میں، ہر ریاست کے پارٹی ارکان خفیہ ووٹنگ کے ذریعے اپنا پسندیدہ امیدوار منتخب کرتے ہیں۔ اس طریقے میں عوامی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔
کاکس: کاکس ایک عوامی اجلاس ہوتا ہے جہاں پارٹی کے ارکان بحث و مباحثہ کے بعد اپنے پسندیدہ امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں۔ کاکس میں زیادہ ترپارٹی کے اندرونی معاملات پرتبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
مرحلہ 2: قومی کنونشنز
پرائمری اور کاکس کے بعد، ہر جماعت اپنا قومی کنونشن منعقد کرتی ہے۔ ان کنونشنز میں پارٹی کے منتخب نمائندے اپنے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں، اور بالآخر ہر جماعت کا صدارتی امیدوار باضابطہ طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران، صدارتی امیدوار اپنے ساتھ نائب صدر (رَننگ میٹ) کا انتخاب بھی کرتا ہے، جو اس کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : چینی وزیر اعظم لی کیانگ کا دورہ پاکستان ، گوادر ایئر پورٹ کا افتتاح ہو گا
قومی کنونشنز میں سیاسی جماعتوں کے نظریات اور منشور بھی عوام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ کنونشنز عوامی سطح پر امیدواروں کے انتخابی وعدوں اور پالیسیوں کا واضح اظہار ہوتے ہیں۔
مرحلہ 3: عام انتخابات
عام انتخابات کا دن نومبر کے پہلے منگل کو ہوتا ہے، جسے الیکشن ڈے Election Day کہا جاتا ہے۔ اس دن امریکی عوام صدر اور نائب صدر کے لیے اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ تاہم، امریکی انتخابی نظام میں عوامی ووٹ براہ راست صدر کے انتخاب میں شمار نہیں ہوتے، بلکہ عوام الیکٹورز کو منتخب کرتے ہیں۔
ہر ریاست میں الیکٹورز کی تعداد ریاست کی آبادی کے مطابق ہوتی ہے۔ زیادہ آبادی والی ریاستوں جیسے کیلیفورنیا اور ٹیکساس میں الیکٹورز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جبکہ چھوٹی ریاستوں میں یہ تعداد کم ہوتی ہے۔ ہر ریاست میں جو امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے، اسے اس ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹ ملتے ہیں، ماسوائے مین اور نیبراسکا کے، جہاں ووٹ تقسیم ہو سکتے ہیں۔
مرحلہ 4: الیکٹورل کالج
الیکٹورل کالج امریکی انتخابی نظام کا سب سے منفرد اور اہم حصہ ہے۔ الیکٹورل کالج میں 538 الیکٹورز ہوتے ہیں، اور صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 یا اس سے زیادہ ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اگر کسی امیدوار کو یہ تعداد مل جائے تو وہ امریکہ کا صدر منتخب ہو جاتا ہے۔
الیکٹورل کالج میں ووٹنگ عام انتخابات کے بعد دسمبر میں ہوتی ہے، اور ووٹوں کی تصدیق کانگریس میں جنوری میں کی جاتی ہے۔ اگر کسی صورت میں کوئی امیدوار 270 ووٹ حاصل نہ کر سکے، تو انتخاب کا فیصلہ ایوان نمائندگان کرتا ہے، جو کہ ایک غیر معمولی صورتحال ہوتی ہے۔
حلف برداری
منتخب صدر اور نائب صدرجنوری کے مہینے میں حلف اٹھاتے ہیں۔ یہ تقریب واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہِل کے سامنے منعقد ہوتی ہے اور یہ ایک قومی تقریب ہوتی ہے جس میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔
اہم نقاط: امریکی انتخابی نظام کے منفرد پہلو
دو جماعتی نظام: امریکی سیاست میں دو بڑی جماعتوں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کا غلبہ ہے، تاہم آزاد امیدوار بھی اس عمل میں حصہ لے سکتے ہیں۔
الیکٹورل کالج کا کردار: الیکٹورل کالج ایک منفرد انتخابی طریقہ کار ہے جو امریکی نظام کو دیگر ممالک سے ممتاز بناتا ہے۔ عوامی ووٹوں کے باوجود صدر کا انتخاب الیکٹورل ووٹوں سے ہوتا ہے۔
قانونی چیلنجز: بعض اوقات انتخابات کے نتائج پر قانونی تنازعات بھی جنم لیتے ہیں، جیسے کہ 2000 کے انتخابات میں ہوا، جب سپریم کورٹ نے فلوریڈا کے ووٹوں کی گنتی روکنے کا حکم دیا اور آخرکار جارج ڈبلیو بش صدر منتخب ہوئے۔
یہ تمام مراحل اور خصوصیات امریکی صدارتی انتخابی عمل کو ایک جامع، پیچیدہ اور منفرد حیثیت دیتے ہیں۔ اس نظام میں عوام کی رائے، جماعتوں کی حکمت عملی اور قانونی تقاضے یکجا ہو کر ایک نئے صدر کے انتخاب میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
دلچسپ اور کانٹے دار مقابلے
امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں کئی دلچسپ اور کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے ہیں جنہوں نے نہ صرف امریکی سیاست بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان مقابلوں میں عوامی جوش و خروش، قانونی تنازعات، اور بہت کم فرق سے کامیبی کے نتائج نے صدارتی انتخابی عمل کو انتہائی دلچسپ بنا دیا۔ یہاں چند اہم اور دلچسپ صدارتی انتخابی مقابلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
1. 1800 کا انتخاب: تھامس جیفرسن بمقابلہ جان ایڈمز
1800 کا صدارتی انتخاب امریکی تاریخ کا پہلا بڑا اور انتہائی کانٹے دار مقابلہ تھا۔ یہ انتخاب نہ صرف دو جماعتی نظام کے قیام کا باعث بنا، بلکہ اس میں انتخابی نظام کی خامیوں کو بھی نمایاں کیا۔ تھامس جیفرسن اور جان ایڈمز کے درمیان یہ مقابلہ اس قدر سخت تھا کہ الیکٹورل کالج میں برابری کی صورتحال پیدا ہوگئی اور فیصلہ ایوانِ نمائندگان میں جا پہنچا۔ بالآخر کئی پیچیدگیوں کے بعد تھامس جیفرسن کو امریکہ کا تیسرا صدر منتخب کیا گیا۔ یہ انتخاب امریکی آئین میں 12ویں ترمیم کی بنیاد بھی بنا، جس میں صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی۔
2. 1876 کا انتخاب: ردرفورڈ بی ہیز بمقابلہ سیموئل ٹلڈن
1876 کا صدارتی انتخاب امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور کانٹے دار مقابلوں میں سے ایک تھا۔ ڈیموکریٹ سیموئل ٹلڈن نے عوامی ووٹوں میں واضح برتری حاصل کی تھی اور الیکٹورل ووٹوں میں بھی آگے تھے، لیکن تین ریاستوں
یہ بھی پڑھیں :اداکارہ ماورا حسین کے انسٹاگرام فالورز کی تعداد 90 لاکھ ہو گئی
کے الیکٹورل ووٹ متنازع ہو گئے۔ ایک خصوصی کمیشن نے تحقیقات کے بعد ہیز کے حق میں فیصلہ دیا، اور ہیز ایک ووٹ کی برتری سے صدر منتخب ہوئے۔ یہ مقابلہ امریکی تاریخ میں “کمپرو مائز آف 1877” کا باعث بنا، جس میں شمالی ریاستوں کے ساتھ ایک سیاسی معاہدہ کیا گیا اور جنوبی ریاستوں میں فوجی مداخلت ختم کی گئی۔
3. 1960 کا انتخاب: جان ایف کینیڈی بمقابلہ رچرڈ نکسن
1960 کا انتخاب ایک انتہائی دلچسپ اور کانٹے دار مقابلہ تھا جو امریکی انتخابات کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ یہ پہلا انتخاب تھا جس میں ٹیلی ویژن پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا، اور ٹی وی کے ذریعے عوام پر امیدواروں کا جوتاثربنا وہ انتخابی نتائج پر بہت اثرانداز ہوا۔ جان ایف کینیڈی اور رچرڈ نکسن کے درمیان یہ مقابلہ انتہائی کانٹے دار تھا، جس میں کینیڈی نے معمولی فرق سے فتح حاصل کی۔ اس انتخاب نے میڈیا اور ٹیلی ویژن کے انتخابی مہمات پر اثرات ابھر کر سامنے آئے۔
4. 2000 کا انتخاب: جارج ڈبلیو بش بمقابلہ الگور
2000 کا صدارتی انتخاب امریکی تاریخ کے سب سے متنازع اور قانونی تنازعات سے بھرپور انتخابات میں سے ایک تھا۔ ڈیموکریٹ امیدوار الگور نے عوامی ووٹوں میں معمولی برتری حاصل کی تھی، لیکن ریاست فلوریڈا کے الیکٹورل ووٹوں پر تنازع کھڑا ہو گیا۔ فلوریڈا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا گیا، لیکن سپریم کورٹ نے دوبارہ گنتی کو روک دیا اور بالآخر جارج ڈبلیو بش کو فاتح قرار دیا گیا۔ اس فیصلے سے امریکہ میں انتخابی نظام اور الیکٹورل کالج کے معاملہ پر شدید بحث شروع ہوگئی۔
5. 2016 کا انتخاب: ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ ہیلری کلنٹن
2016 کا صدارتی انتخاب بھی ایک غیر معمولی اور کانٹے دار مقابلہ تھا جس میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دی، حالانکہ ہیلری کلنٹن نے عوامی ووٹوں میں برتری حاصل کی تھی۔ اس مقابلے نے امریکی عوام کے دو گروہوں کے درمیان ایک گہری تقسیم کو ظاہرکیا اور الیکٹورل کالج کے کردار پر دوبارہ سوالات کھڑے ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کو غیر متوقع سمجھا گیا اور اس نے عالمی سطح پر بھی وسیع اثرات مرتب کیے۔
6. 1948 کا انتخاب: ہیری ایس ٹرومین بمقابلہ تھامس ڈیوی
1948 کا انتخاب ایک دلچسپ اور تاریخی مقابلہ تھا، جس میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیری ایس ٹرومین اور ریپبلکن امیدوار تھامس ڈیوی آمنے سامنے تھے۔ تقریباً تمام تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ڈیوی جیت جائیں گے، اور کئی اخبارات نے قبل از وقت ڈیوی کی فتح کی سرخیاں تک شائع کر دیں۔ لیکن انتخابی رات کے آخر میں ٹرومین نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ اس انتخابی مہم کا نتیجہ “ڈیوی ڈیفیٹس ٹرومین” Dewey Defeats Truman کی اخباری سرخی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو انتخابی تجزیوں میں غلط اندازوں کی ایک مثال بن گیا۔غلط سرخی مشہور امریکی اخبار” شکاگو ڈیلی ٹریبیون” نے بھی شائع کی تھی-( جس کا نام بعد میں “شکاگو ٹریبیون” ہو گیا )
(م ط ن – نئی تازہ ڈیسک )