تحریر: شہزادہ احسن اشرف
Why I ask from them ? Why not from these ?
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دنیا کے 200 ممالک چھوڑ کر میں لیبیا، عراق، شام، کشمیر یا غزہ کے لوگوں سے ہی حالات کیوں پوچھوں؟
میں چند سو کلومیٹر دور عمان کے لوگوں سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں اس کے پڑوسی، متحدہ عرب امارات سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، سوئیڈن کے لوگوں سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں پڑوس میں واقع بھارت سے کیوں نہ پوچھوں جہاں دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کرنے کے لیے بیتاب ہیں؟
میں دوسرے پڑوسی، چین سے کیوں نہ پوچھوں جو پوری دنیا کا مینوفیکچرنگ ہب ہے، اور اپنی عوام کو انتہائی سستی بجلی دے رہا ہے؟
میں کچھ کچھ عشروں پہلے ہی جنگ کی تباہ کاریوں سے ابھر کر، معاشی قوت بننے والے ویت نام سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں چپ میکنگ کے بے تاج بادشاہ تائیوان سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں ایٹم بم سے مکمل تباہ ہوجانے والے، اور نہ ہونے کے برابر قدرتی ریسورسز رکھنے والے جاپان سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں سب سے بڑی مسلمان آبادی رکھنے والوں میں شامل، اور ٹورسٹ destination بننے والے انڈونیشیا سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں معاشی قوت بننے والے ملائیشیا سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں قابل مثال ترقی کرنے والے ترکی سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں بدترین پابندیوں کا شکار ہونے کے باوجود، اپنی عوام کو ہر طرح کی سہولیات دینے والے پڑوسی ملک، ایران سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں دنیا میں اس وقت تیز ترین جی ڈی پی گروتھ رکھنے والے افریقی ملک گھانا سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں ایک انتہائی پرامن اور بزنس فرینڈلی مسلمان ملک قطر سے کیوں نہ پوچھوں؟
میں کینیڈا کی عوام سے کیوں نہ پوچھوں؟
غرض کہ ایک طویل فہرست ہے ممالک کی، جن کے عوام آزادی کے ساتھ ساتھ، امن، ترقی، معاشی خوشحالی و دیگر سہولیات سمیت ہر چیز انجوائے کررہے ہیں
میں ان تمام ممالک کو چھوڑ کر صرف لیبیا، عراق و شام جیسے ہی ممالک سے ہی اپنا موازنہ کیا کروں۔
یعنی،
ہم دنیا کو یہ بتارہے ہیں کہ پاکستان اب صرف لیبیا، شام و عراق جیسے ہی ممالک سے بہتر ملک رہ گیا ہے۔ باقی ماندہ دنیا ہم سے اتنی آگے نکل چکی ہے کہ ہم ان سے موازنہ کرنے کے بھی قابل نہیں رہے ۔
اس تنزلی کا ذمہ دار کون ہے؟
(مصنف سابق وفاقی وزیرصنعت و پیداوار اورپی آئی اے کے سابق چیئرمین و منیجنگ ڈائریکٹر ہیں)
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں