2018 میں اس پاور پلانٹ نے کام کرنا شروع کیا اور 969 میگاواٹ بجلی نیشل گرڈ میں شامل کی جو کہ ایک بہت خوش آئند بات تھی۔
2008 میں جب اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تو اس کی لاگت کا تخمینہ 80 کروڑ ڈالر تھا جو بڑھ کر اس کی تکمیل تک 5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ چار سال بجلی کی فراہمی کے بعد جولائی 2022 میں پاور پلانٹ کی Tail race Tunnel میں دراڑیں آئیں اور پھر وہ بلکل بلاک ہوگئی جس سے پیداوار بلکل رک گئی۔
اس واقعہ کی تحقیق کے لیے بیرون ملک سے ماہرین بلا کر ایک ٹیم بنائی گئی جس میں امریکہ، سپین، پرتگال، سویزرلینڈ شامل ہیں۔ ان کی رپورٹ کے مطابق ٹنل کی کنسٹرکشن میں بہت زیادہ خامیاں تھیں ، یہاں تک کہ جہاں کنکریٹ بھرنا تھا وہاں مٹی بھر دی گئی اور اس ٹنل پر اوپر پتھروں اور پہاڑ کو سپورٹ کےلیے کوئی طاقت نہ تھی۔ ٹنل کے اوپر پتھروں نے اس کو توڑ دیا اور اس 3.5 کلومیٹر ٹنل کا 250 میٹر کا حصہ پتھروں سے بھر گیا۔
مرمت کے 14 ماہ بعد ستمبر 2023 میں 6 ارب روپے کی مرمت کی لاگت اور 37 ارب روپے بجلی نہ پیدا ہونے کی مد میں نقصان کے بعد اس پر کام مکمل ہونے کے بعد پیداوار دوبارہ شروع ہوئی۔ لیکن ایک اور مسئلہ انتظار میں تھا، مارچ 2024 تک فل پاور پر جانے کے بعد اپریل 2024 میں پاور تقریباً آدھی رہ گئی (530 میگاواٹ)۔ اس کی وجہ ڈیم سے پلانٹ تک کی سرنگ (Head race tunnel) میں پانی کا بہاؤ پتھر اور کچرا آنے سے بہت کم ہوگیا۔
اب یہ مسئلہ تقریباً دو سال تک اس پلانٹ کو بند رکھے گا اور ہر سال اس پلانٹ کے بند رہنے پر 50 ارب روپے کا نقصان ہوگا یعنی دو سال میں 100 ارب روپے سے بھی زیادہ۔ مئی 2024 میں وزیراعظم شہباز شریف نے وہاں کا دورہ بھی کیا اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا بھی کہا آج تک اس پلانٹ کو بنانے والے اور ان کے کنٹریکٹرز کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا کہ اس پلانٹ پر وقت اور سرمایہ کے ضیاع کا کون ذمہ دار ہے۔ اس وقت اگر یہ پلانٹ چل رہا ہوتا تو سسٹم میں 1000 ہزار میگا واٹ بجلی موجود ہوتی اور عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ریلیف مہیا ہو جاتا۔
اس ملک کو قدرت نے بے بہا نعمتوں اور ان گنت خزانوں سے نوازا ہے مگر اس غریب قوم کی بدقسمتی کہ بدعنوان اور کرپٹ اشرافیہ اس ملک کو پچھلے 76 سالوں سے لوٹنے میں مصروف ہے اور عام آدمی کی زندگی ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ دعا ہے کہ جو جو بدبخت حکمران اور اشرافیہ بھی اس ملک و قوم کو نقصان کی اب تک ذمہ دار رہی ہے اللہ تعالی ان سب کو عبرتناک انجام سے دوچار کرے اور ان کی تمام کمائ غارت جائے اور وہ اور ان کی آل اولاد اس حرام کی کمائ سے کوئ فائدہ نہ اٹھا سکیں بلکہ یہ حرام کا مال ان بدبختوں کے لئے اس دنیا اور آخرت میں تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی کا باعث بنے ۔
(مصنف سابق وفاقی وزیرصنعت و پیداوار اورپی آئی اے کے سابق چیئرمین و منیجنگ ڈائریکٹر ہیں)