لاہور( نئی تازہ رپورٹ) خصوصی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم کے صاحبزادے سلیمان شہباز سمیت دیگر ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا.
پیر کو سلیمان شہباز عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 27 سوالات کے جوابات جمع کرایے.
عدالت نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ معاملہ کی انکوائری کس نے کی تھی ۔ایف آئی اے وکیل نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے انکوائری کی تھی جس کے سربراہ ڈاکٹر رضوان تھے.
جج بخت فخر بہزاد نےاستفسار کیا کہ ایف آئی اے نے پوری تفتیش میں کسی ایک گواہ کا بیان لکھا ہے؟ جس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسرخاموش ہو گئے ۔
عدالت نے پوچھا کہ جو لوگ انکوائری اور انوسٹی گیشن میں اپنا موقف تبدیل کرتے رہے انکے خلاف کیا کارروائی کی ۔
تفتیشی افسر علی مردان نے کہا کہ ہم نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ جج کی طرف سے سوال کیا گیا کہ ایف آئی اے کے 7 والیم میں کوئی ثبوت ہے ؟ ۔
جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے والوں کو ابھی جیل بھیج دوں گا، یاد رکھیں مجھے جواب چاہیے کہ چالان کے ساتھ جرم کا کیا ثبوت تھا ۔
عدالت نے پوچھا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کدھر ہے جس نے یہ سب کیا ہے۔
وکیل ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ثنااللہ عباسی ڈی جی ایف آئی اے تھ، ہم نے لیٹر لکھا تھا وہ نہیں آئے۔
وکیل نے بتایا کہ سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کےکوئی ڈائریکٹ شواہد موجود نہیں ۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کوئی ان ڈائریکٹ ہے تو وہ ہی بتا دیں ۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی شروع کی گئی تھی، تفتیش میں ایف آئی اے نے سلیمان شہباز کے اکاؤنٹ کی تفصیلات لی تھیں لیکن انکا اکاؤنٹ استعمال نہیں ہوا۔
عدالت نے سوال کیا کہ جب انکا اکاؤنٹ ہی استعمال نہیں ہوا تو پھر آپ نے انکے خلاف کیس کیوں بنایا ۔ تفتیشی افسر کا موقف تھا کہ سلیمان شہباز کے اکاؤنٹس میں پیسے جمع ہوتے تھے اور کیش میں نکلتے تھے ۔عدالت نے استفسار کیا کہ پیسے جمع ہونا اور نکلنا کون سا جرم ہے ۔
جج نے برہمی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اسی لیے ایف آئی اے کو بلایا تھا کہ آکر بتائیں اتنے سال کیا یہ ڈرامہ چلتا رہا ہے
عدالت نے مزی استفسار کیا کہ شہزاد اکبر کو ریکارڈ کون دیتا تھا جو پریس کانفرنس کرتے تھے ، 100 بار تو اس نے پریس کانفرنس کی تھی ۔
بعد ازاں عدالت نے بریت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سلیمان شہباز سمیت دیگر کو کیس سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا.