اسلام آباد ( نئی تازہ رپورٹ) سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات التواء کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائے جانے کے وقت اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطاء بندیال ن نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کا معاملہ بعد میں دیکھ لیں گے اس حوالے سےاستدعا مسترد نہیں کی تھی، ضمنی انتخابات کا موازنہ عام انتخابات سے مت کریں، حکومت معاشی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ میں پیر کو سماعت کے موقع پر سکیورٹی بڑھا دی گئی اورسپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت تھی جن کے مقدمات زیرسماعت تھے۔
سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں موجودہ تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔
سماعت کے آغاز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آ گئے اورکہا کہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کیس کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے؟فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جی کیس کا حصہ ہیں ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ مشاورت کر کے ہمیں بتائیں، ہمیں تحریری طور پر بتائیں، اگر بائیکاٹ نہیں کیا تو بھی بتائیں۔فاروق نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں لگا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ہمیں صرف بینچ پر اعتراض ہے، بائیکاٹ نہیں کیا۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے، بینچ پر تحفظات ہیں، کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو تحریری طور پر بتائیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس نکتے پر بات کر چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھا ہےکہ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں سے متعلق رولز موجود ہیں، از خود نوٹس پر 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہو گا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے ناکہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟اٹارنی جنرل منصورعثمان نے جواب دیا کہ موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کی تیسری کیٹیگری میں آ سکتا ہے، 184 تھری کے رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروا ئی کیسے مؤخر کریں؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو لیا تھا، آپ کی اب استدعا فل کورٹ کے بجائے لارجر بینچ کی ہونی چاہیے، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں دکھا دیں کہ کسی جج نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا؟ ججز نے کہا چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں شامل کریں یا نہیں، پچھلے 3 دنوں سے سپریم کورٹ کے سینئر ججز سے مشاورت کر رہا ہوں، کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
دلائل کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چار تین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ موجودہ حالات بہت مشکل ہیں۔
۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 2 سیکریٹریز کو ہم نے بلایا تھا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ میرے پاس ہے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سیکیورٹی کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے، سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری دفاع کو سن کر واپس بھیج دیتے ہیں۔
عدالت کے طلب کئے جانے پرسیکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ حمود الرحمٰن عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں سیکیورٹی کی صورتِ حال سنگین ہے؟سیکر یٹری دفاع نے جواب دیا کہ پنجاب میں سیکیورٹی سے متعلق اِن چیمبر بریفنگ دیں گے، ہم نے کورٹ میں کچھ بولا تو دشمن معلومات لیک کر سکتا ہے، حساس معلومات چیمبر میں بتائیں گے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئےکہا کہ میری رائے میں ابھی سیکیورٹی کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے۔چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انتخابات کے لیے سیکیورٹی کون دے گا؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کے روز دیگر فورسز سے سیکیورٹی لی جا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت کو یہ اعتماد کیسے ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ سیکیورٹی اورفنڈ ملیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، ریٹائرڈ آرمی کے جوان بھی سیکیورٹی کے لیے لیے جا سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ریٹائرڈ جوان بلانے کا کوئی طریقہ کار ہے؟
سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ ریٹائرڈ آرمی جوان ریزرو فورس ہوتی ہے جنہیں مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع صاحب کیا آپ سربمہر کچھ فائلیں لائے ہیں؟سیکریٹری دفاع نے جواب دیا کہ ابھی نہیں لائے، پیش کر دوں گا۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ہمیں سر بمہر فائلیں دے دیں، ہم ان کا جائزہ لے کر واپس کر دیں گے، سیکریٹری دفاع کو اگلی سماعت پر آنے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ سوالات ہمارے ذہن میں آئے تو کھلی عدالت میں پوچھ لیں گے۔
اس موقع پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اپنی افواج کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، حساس آپریشن ہوتے ہیں، ہم کوئی معلومات لیک نہیں ہونے دیں گے۔سیکریٹری دفاع نے کہا کہ تفصیلی بریفنگ ان چیمبر دیں گے، تفصیلی رپورٹ بھی چیمبرمیں پیش کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سیکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سیکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکریٹری دفاع حساس معلومات شیئر نہ کریں، زبانی معلومات کے بجائے تحریری جواب دے دیں ۔جس پر سیکریٹری دفاع نے کل تک جواب جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ 6 دن سے یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہا ہوں، کیا مجھے اپنی شنوائی کے لیے اخبار میں آرٹیکل لکھنا ہو گا؟ عدالت میں میری تذلیل ہو رہی ہے، مزید اپنی تذلیل نہیں کراؤں گا۔چیف جسٹس نے اکرم شیخ کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل تحریری دے دیں۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے بھی پیش ہو رہا تھا، سیاسی جماعت اور گورنرکی طرف سے ایک ساتھ پیش ہونے پر مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے، میں گورنر کے پی کی نمائندگی کا وکالت نامہ واپس لیتا ہوں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اب وزارتِ دفاع کی رپورٹ کا انتظار ہے۔جسٹس منیب اختر نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے عدالتی بائیکاٹ کی خبریں چلوائی گئی ہیں، آپ کو علم ہے کہ ن لیگ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایسی بات کی گئی؟
بعد ازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، محفوظ فیصلہ سنانے کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔