اسلام آباد ( نئی تازہ رپورٹ) اسلام آباد کی عدالت نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ فوجداری کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست مسترد کر دی ۔
جمعرات کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ظفر اقبال نے کیس کی سماعت کی ۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعدعمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کردی اور ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے۔ عدالتی فیصلہ کے مطابق عمران خان کو گرفتار کرکے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم برقرار رہے گا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ میں نے تفصیلی فیصلے میں سب کچھ لکھ دیا ہے کہ وارنٹ ہوتا کیا ہے اور کب جاری کیا جاتا ہے سب کچھ لکھ دیا ہے، امید ہے فیصلہ پڑھ کر آپ کو مزا آئے گا۔
اس سے قبل عمران حان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث اور فیصل چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو جج نے استفسار کیا کہ آپ ایک بتایئں آپ مزاحمت کیوں کر رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟ جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آپ ہائیکورٹ کے آرڈر کو جوں کا توں دیکھ لیں اور اگر آپ مطمئن ہیں تو انڈرٹیکنگ لے لیں عمران حان 18 مارچ کو خود پیش ہوجائیں گے۔ آپ وارنٹ کو واپس نہ لیں معطل کر دیں تاکہ عمران خان خود عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں۔
جج ظفر اقبال نے کہا کہ ہم تھانے کے ایس ایچ او کو نوٹس کرکے پوچھ لیتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں حالات خراب ہیں آپ وارنٹ کو معطل کر دیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ حالات کیوں خراب ہیں اور آپ تعاون کیوں نہیں کر رہے ہیں، اس پر اتنا نقصان ہوا اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں اور وہ استثنیٰ نہیں مانگ رہے بلکہ عدالت آنا چاہتے ہیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا لیکن وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈر ٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟
قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنا ہے مزاحمت نہیں کرنی، عمران خان نے مزاحمت کرکے سین کو بنانا نہیں ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 76 میں انڈر ٹیکنگ کا کانسیپٹ موجود ہے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 76 میں تو قابل ضمانت وارنٹ کے حوالے سے لکھا ہے ناقابل ضمانت کے حوالے سے نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر گرفتار کرنا ہی ہے تو پھر ہم ہائیکورٹ کیوں جاتے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے میرے آرڈر کو بحال رکھا ہے۔
آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ میں اس لیے آیا کیونکہ ایس ایچ او میرا لاہور میں ہے، ابھی تمام بزور بازو ملزم عمران خان سے نہیں ملنے دیا گیا اور جتنی مرتبہ بھی وارنٹ ہوتے ہیں ہم قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہیں، ہمارے ایس پی پچھلی بار گئے انہوں نے شیورٹی دی گئی تھی۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں ان 65 پولیس والوں کی طرف سے حاضر ہوا ہوں جو اس وقت اسپتالوں میں داخل ہیں، میں ان جوانوں کی ماؤں کو کیا جواب دوں! ڈی آئی جی رینک کے آفیسر اسپتالوں میں داخل ہیں۔ کسی پولیس والے کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، ڈی آئی جی آپریشن جو سب سے آگے تھے ان کی تصویر دیکھیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بھی آن ریکارڈ ہے کہ وہ کہیں اور مقدمات میں بھی مطلوب تھے، ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد کی ٹانگ پر فریکچر ہے اور کچھ اہلکاروں کے بازو بھی ٹوٹے ہیں۔ جو رعایت عدالت اس ملزم کو دینا چاہتی ہے وہ 22 کروڑ کو بھی دے اور عدالت ناقابل ضمانت وارنٹ کے قانون پر پھر نظر ثانی کر لے۔