لاہور ( نئی تازہ نیوز) پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ سے اختلافات این آر او اور فیض حمید کے معاملے پر ہوئے، برے حالات کی ذمہ داری مجھ سے پہلے 30 سال تک حکومت کرنے والوں پر ہے،اسمبلیاں تحلیل ہوتے ہی حکومت بند گلی میں آ چکی ہے.
ویڈیو لنک خطاب میں عمران خان نے کہا کہ قبائلی علاقہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت پرامن تھا، فوج بھیجنا بہت بڑی غلطی تھی، میری جماعت اور ایم ایم اے نے امریکی مداخلت کی بہت مخالفت کی تھی، مجھے طالبان خان کہا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں جنگ لڑی ، یہ جنگ ہماری نہیں تھی، ہم نے اس کے لئے ڈالرز لیے، پروپیگنڈے کے ذریعے کسی کی جنگ کو اپنی جنگ بنایا گیا، امریکا افغانستان میں گیا تو سب کو پتہ تھا اس کا ردعمل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں ہماری حکومت آئی تو پولیس کے حوصلے پست تھے، ہم نے اصلاحات کیں اور مرحوم آئی جی درانی کو لے کر گئے، ہم نے پولیس کمانڈوز کی ٹریننگ کرائی جس کی بدولت پختونخوا کی پولیس پیروں پر کھڑی ہوئی اور ہم نے اس جنگ سے کامیابی سے واپسی کی تھی۔اشرف غنی صدر تھے تو میں خود بھی کابل گیا تھا، ہمارا مؤقف تھا افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں امن ہو گا۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ خوف تھا جب افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی تو پاکستان پر بھی اثرات پڑیں گے،
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ سے کوئی اختلافات نہیں تھے، ہم ایک پیج پر تھے، جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت ایک پیج پر تھی تو ملک کا بڑا فائدہ ہوا، کافی اچھے اچھے کام کیے لیکن پہلا اختلاف یہ ہوا کہ ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ نے بار بار ہمیں کہا کہ ان کو این آر او دے دو اور احتساب سے پیچھے ہٹ جاؤ لیکن میں نے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ سے دوسرا اختلاف جنرل فیض پر ہوا، میں چاہتا تھا کہ افغانستان کی وجہ سے سردیوں تک جنرل فیض کو رکھا جائے کیونکہ سب سے مشکل وقت میں سب سے سینئر فرد کو انٹیلی جنس کا سربراہ ہونا چاہیے کیونکہ مجھے اس وقت سے دہشت گردی کا خوف تھا۔عمران خان نے کہا کہ برے حالات کی ذمہ داری مجھ سے پہلے 30 سال تک حکومت کرنے والوں پر ہے،انہوں نے سازش کرکے ہماری حکومت گرائی، لوگوں کی ملک سے امید ہی چلی گئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ برے حالات کی ذمہ داری مجھ سے پہلے 30 سال تک حکومت کرنے والوں پر ہے، ہم اس کے ذمہ دار ہیں، جو ہمارے دور میں ہوا، جو ہمیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ان سے ہمارا سوال ہے کہ ہمارے دور میں خیبر پختونخوا میں کچھ کیوں نہیں ہوا، جب ہم حکومت ہی میں نہیں تو حالات کے ذمہ دار کیسے ہوگئے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے عوام مسائل کاشکار ہوگئے ہیں، ابھی ملک میں مزید مہنگائی آنی ہے، ابھی پیٹرول اور ڈیزل مزید بڑھے گا، گیس اوربجلی کی قیمتیں اور اوپرجائیں گی۔
عمران خان نے کہا کہ سانحہ پشاور انتہائی دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے، پشاور حملے کو استعمال کرکے یہ الیکشن آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ پشاور حملے پر افسوس ہے، تفتیش سے پہلےگورنر نے الیکشن ملتوی کرنےکا خط کیسے لکھ دیا؟
لاہور میں صحافیوں سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نےکہا کہ آصف زرداری سے متعلق دیے گئے بیان پر قائم ہوں، شوق سے ہتک عزت کا دعوی کریں، ہتک عزت کا دعوی وہ کرتے ہیں جن کی اپنی کوئی عزت ہوتی ہے۔عمران خان نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل نہ کرتے تو عام انتخابات نہیں ہونے تھے، اسمبلیاں تحلیل ہوتے ہی حکومت بند گلی میں آ چکی ہے، اسمبلیاں تحلیل کرنا میری بہترین حکمت عملی تھی، 90 روز میں انتخابات نہ کرائے گئے تو آئین شکنی ہو گی۔عمران خان نے مزید کہا کہ ٹھیک ہو کر انتخابی مہم کا آغاز کروں گا، ابھی میرا ایک اور میڈیکل چیک اپ ہونا ہے۔