امریکی سپریم کورٹ نے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت ایپلی کیشن کو امریکی خریداروں کو فروخت نہ کرنے کی صورت میں اتوار سے بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹک ٹاک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ فوری طور پر یقین دہانی فراہم نہیں کرتی تو وہ اتوار کو امریکا میں اپنے 17 کروڑ صارفین تک رسائی بند کردے گی۔ کمپنی نے کہا کہ پابندی سے متعلق وضاحت اور یقین دہانی کی فوری ضرورت ہے تاکہ اس کی سروس کو برقرار رکھا جاسکے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے دن کے آغاز میں فیصلہ سناتے ہوئے متنازع پابندی کو برقرار رکھا، جسے صدر بائیڈن نے اپریل میں دستخط کرکے قانون کی صورت میں نافذ کیا تھا۔ یہ قانون کانگریس میں دونوں جماعتوں کی مضبوط حمایت سے منظور ہوا اور اس کے تحت ٹک ٹاک کو امریکی خریداروں کو فروخت کرنے یا امریکا میں مکمل پابندی کا سامنا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کا مؤقف
وائٹ ہاؤس کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے کہ پابندی کے نفاذ کا معاملہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سپرد کیا جائے گا، جو پیر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ تاہم ٹک ٹاک نے اس مؤقف کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے واضح یقین دہانی فراہم نہ ہونے کے باعث ایپ کو بند کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔
ٹک ٹاک کا مؤقف
کمپنی نے اپنے بیان میں کہا، “آج وائٹ ہاؤس اور محکمہ انصاف کی جانب سے جاری کیے گئے بیانات نے ضروری وضاحت فراہم نہیں کی ہے، جو ٹک ٹاک کی خدمات کو 17 کروڑ امریکی صارفین کے لیے برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔” کمپنی نے مزید کہا کہ اگر فوری طور پر یقین دہانی نہ دی گئی تو اتوار کو ٹک ٹاک کی سروس معطل کردی جائے گی۔
ٹرمپ کا ردعمل
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پابندی پر اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پابندی کی مخالفت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس بل پر عملدرآمد کو مؤخر کرے تاکہ ان کی انتظامیہ ایک ایسا معاہدہ کرسکے جس کے تحت ٹک ٹاک امریکی خریداروں کو فروخت کیا جائے۔ تاہم سپریم کورٹ نے ایپ کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے پابندی کے نفاذ کی اجازت دے دی۔
ممکنہ صورت حال
اگر ٹک ٹاک اتوار کو اپنی سروس بند کردے، تو یہ اس وقت تک بند رہے گی جب تک نئی انتظامیہ اس بات کی وضاحت نہیں کرتی کہ قانون کی خلاف ورزی پر اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پابندی کے نفاذ کو معطل کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی حتمی بیان جاری نہیں کیا۔