استاد نے طلباء سے کہا کہ “چور” پر ایک مضمون لکھیں۔
ساتویں جماعت کے طالب علم گوہر اعجاذ نےایسا مضمون لکھا
چور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ایک مذاق ہے یا یہ غلط ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت میں قابل غور موضوع ہے۔
چوروں کی وجہ سے سیف، الماری اور تالے درکار ہیں۔ یہ ان کمپنیوں کو کام دیتا ہے جو انہیں بناتے ہیں.
چوروں کی وجہ سے گھروں کی کھڑکیوں میں گرلز ہیں، دروازے ہیں، جو بند ہیں، یہی نہیں، باہر سیکیورٹی کے لیے اضافی دروازے بھی ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔
چوروں کی وجہ سے گھروں، دکانوں اور سوسائٹیوں کے ارد گرد ایک کمپاؤنڈ بنا ہوا ہے۔
گیٹ ہیں، گیٹ پر 24 گھنٹے گارڈ تعینات رہتا ہے، اور گارڈ کے لیے یونیفارم بھی ہے۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔
چوروں کی وجہ سے صرف سی سی ٹی وی کیمرے اور میٹل ڈیٹیکٹر ہی نہیں بلکہ سائبر سیل بھی موجود ہیں۔
چوروں کی وجہ سے پولیس، تھانے، پولیس چوکیاں، گشتی کاریں، لاٹھیاں، رائفلیں، ریوالور اور گولیاں ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔
چوروں کی وجہ سے عدالتوں میں عدالتیں، جج، وکیل، کلرک اور ضمانتی بندے ہیں۔ تو بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔
چوروں کی وجہ سے جیلوں کے لیے جیلر، جیلر اور پولیس ہیں۔ اس لیے روزگار کے بہت مواقع ہیں۔
جب موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرانک ڈیوائسز، سائیکلیں اور گاڑیاں چوری ہوتی ہیں تو لوگ نئی خریدتے ہیں۔ اس خرید و فروخت سے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو کام ملتا ہے۔
اگر کوئی چور بہت زیادہ پہچانا اور مشہور ہو تو اندرون و بیرون ملک کا میڈیا بھی اس کی روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔
یہ سب پڑھنے کے بعد آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ چور پورے حکومتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاشرے میں لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔
(مصنف سابق وفاقی وزیرصنعت و پیداوار اورپی آئی اے کے سابق چیئرمین و منیجنگ ڈائریکٹر ہیں)